Mohabbat mein break ki shayari


روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے

تیری خوشیوں کا سبب یار کوئی اور ہے ناں
دوستی مجھ سے اور پیار کوئی اور ہے ناں


کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر

میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں


تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے



سچ کہوں سہا نہیں جاتا
جب تم روٹھ جاتے ہو،

وقت نے صبر کرنا سیکھا دیا 
ورنہ ہم تو تیرا دور جانا موت سمجھ بیٹھے تھے


یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے


ایک چاند اکیلا ہے ستاروں کے بیچ میں
میری پسند ہے تو ہزاروں کے بیچ میں


چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا



وہ ترک تعلق کا ا شارہ نہیں کرتے
ہر بات بھی اب ہم سے گوارہ نہیں کرتے



یاد آؤں گا ہر گھڑی تم کو
ایک بار بچھڑ تو جانے دو


ترک-تعلق كی ھم سے يہ اب شكايت كيسی پری
محبت كے رشتوں ميں كھايا ھے دھوكہ بہت
لوگوں نے ميری چاہتوں كا مزاق اڑايا ھے بہت


ٹوٹا ھے دل ھمارا تمھارا تو نہیں
میں تھک کے گرا ھوں ابھی ہارا تو نہیں



الوداع کہنے کو دل نہیں مانتا
پہلے دن ملے تھے انجان تھے جو
آج ایک دوسرے کی جان ہو گئے




میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا




آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے
پر دل کی اداسی ، نہ در و بام سے اترے





سو بار یہ دل ٹوٹا، سو بار ہوئے سودائی
جب بھی کسی لڑکی نے ہم کو ہے کہا بھائی



کبھی کبھی جینے کے لئے جدائی ایسے ضروری ہو جاتی ہے 
جیسے جنت پانے کے لئے موت ضروری ہو جاتی ہے


خاموشیوں کا موسم سرگوشیوں کا موسم
ایک دردِ لا دوا ہے مدہوشیوں کا موسم



ہے مجھے یاد اب بھی وه ساون کی رات
تهی وه تجه سے میری الوداعی ملاقات




خاموشی کہہ رہی ہے
اے مُسافر سُنو! میری قبر ہی سجا جاؤ
اُن کے آنگن کے شجر کی یہاں ڈالی ہی لگا جاؤ



کسی کو الوداع کہنا بہت تکلیف ہوتی ہے
کسی کو الوداع کہنا
دیکھائی کچھ نہیں دیتا



الوداع سال گذشتہ
خوشیاں ملیں غم بھی ملے اس سال میں ہمیں
اچھے برے دن بھی ملے اس سال میں ہمیں




اس رات بڑی خاموشی تھی
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو
اس رات دریچے خالی تھے



کبھی اس درد سے گزرو تو معلوم ہو تم کو 
جدائی وہ بیماری ہے جو دل کا خون پیتی ہے


یونہی دیکھا ہے گھڑی کی جانب 
ہمیں کسی کا انتظار تھوڑی ہے

تعلق تو ڑتا ہوں تو مکمل توڑ د یتا ہوں
جسے میں چھوڑ د یتا ہوں تو مکمل چھو ڑ دیتا ہوں


تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا


آنکھیں رہتی ہیں شام و سحر منتظر تیری
آنکھوں کو سونپ رکھا ہے انتظار تیرا



تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا


موت سے کہو ذرا انتظار کرے 
ابھی امید ہے مجھے اس کے آنے کی



میں اکیلا چلا تھا پیروں سےجنگ کرنے
ان کہ غنڈےآتے رہے مجھےتنگ کرنے


آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے
ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں


شام کی خاموشی میں یہ شور کیسا ہے
راہوں سے پوچھتے ہیں یہ موڑ کیسا ہے

لوگ جدا ہوئے اور بھی لیکن 
ایک تیرا جدا ہونا مجھ کو ویران کر گیا


ٹوٹا دل
میری آنکھیں دھواں دھواں سی
اور دل بھی ہے ٹوٹا ٹوٹا سا


ختم تعلق کرے تو کوئی غم نہیں
یہ بات بھی سہہ جائیں گے اُس کی خوشی میں ہم


یہ رابطوں میں غفلت یہ بھولنے کی عادت
کہیں دور ہو نہ جانا یونہی دور رہتے رہتے

تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا



سرد موسم میں اداسی اچھی نہیں لگتی
پیار میں یار کی خاموشی اچھی نہیں لگتی



خاموشی ٹوٹ جاتی ہے
سنو
بڑا مان ہے نا تمہیں ۔۔۔۔۔اپنے لہجے پر


دوستی کا ہاتھ
گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں


اپنے انداز کا اکیلا تھا
اس لئے میں بڑا اکیلا تھا


حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے




اس نے توڑا وہ تعلق جو میری ذات سے تھا
اسے رنج ناجانے میری کس بات سے تھا



تمھارے بعد خاموشی کا منظر
دل ناشاد خاموشی کا منظر



مدت ہوئی بچھڑے ہوئے اک شخص کو لیکن
اب تک در و دیوار پہ خوشبو کا اثر ہے



ٹوٹا ہوا دل کیوں نہ گبھرائے
شکستہ دیواروں کے مکان گر جاتے ہیں



دل میرا بن کے آئینہ ٹوٹا
تیری محفل میں بارہا ٹوٹا


موت سے پہلے بھی اک اور موت ہوتی ہیں 
دیکھو زرا تم کسی اپنے سے جدا ہو کر


تم سے ترک تعلق کے باوجود
محسوس کی ھے تیری کمی کبھی کبھی



خاموشیوں کے طوفاں کو یوں نہ الجھایا کر
اپنی حالت زار سے کچھ تو بتایا کر


الوداع کیسے کہوں
زخم زخم ھے زباں

بچھڑنے کی اتنی جلدی تھی اسے 
خود کو چھوڑ گیا آدھا مجھ میں


کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو
ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو


آنسوؤں کو بہنے کی لت لگ گئی ہے
کچھ نہیں دیکھتے جن آنکھوں سے وہ بہہ رہے ہیں



آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم
آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو


تعلق اس طرح توڑانہی کرتے
کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہو جائے


وہ جو ہاتھ تک لگانے کو سمجھتا تھا بے ادبی 
گلے لگ کے رو دیا بچھڑنے سے ذرا پہلے


میں نے جو کچھ بھی سوچا ہوا ہے وہ میں وقت آنے پر کر جاؤں گا
تم مجھے زہر لگتے ہو اور میں کسی دن تمہیں پی کر مر جاؤں گا


تعلق تو ڑتا ہوں تو مکمل توڑ د یتا ہوں
جسے میں چھوڑ د یتا ہوں تو مکمل چھو ڑ دیتا ہوں

ترک تعلقات کی قیمت نہ پوچھیے
بکھرے ہوئے جذبات کی حسرت نہ پوچھیے



بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا
آپ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا




ہم سمجھ گئے ساری
تمہاری ان کہی باتیں




ترک تعلقات کی قیمت نہ پوچھیے
بکھرے ہوئے جذبات کی حسرت نہ پوچھیے




ترک تعلقات کی قیمت نہ پوچھیے
بکھرے ہوئے جذبات کی حسرت نہ پوچھیے



اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں



تونے ہمیشہ آنے میں دیر کر دی
میں نے ہمیشہ اپنی گھڑی کو خراب سمجھا




تیرے ہجر سے تعلق کو نبھانے کے لئے 
میں نے اس سال بھی جینے کی قسم کھائی ہے


ہم تیرے ہجر میں یوں زرد ہوئے جاتے ہیں 
لوگ تکتے ہیں تو ہمدرد ہوئے جاتے ہیں



تم سے اب پہلے سا تعلق تو نہیں
یہ اور بات ہے تمھیں بھولا پائے نہیں



یہ ٹھیک ہے کہ تیری بھی نیندیں اجڑ گئیں 
تجھ سے بچھڑ کے ہم سے بھی سویا نہیں گیا



آنکھ لگتی ہی نہیں خوف ہے طاری ایسا
خواب آتے ہیں سبھی تجھ سے بچھڑنے والے



کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا میں اکیلا
بھرا اب بھی مرے گاؤں کا میلہ میں اکیلا



اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا




ترک-تعلق كی ھم سے يہ اب شكايت كيسی پری
محبت كے رشتوں ميں كھايا ھے دھوكہ بہت
لوگوں نے ميری چاہتوں كا مزاق اڑايا ھے بہت





ترکِ تعلق ہے نہ یہ بے مروتی
خواہش کے احترام میں ہیں، بندشیں خود پر



رات تاریک راستے خاموش
منزلوں تک ہیں قمقمے خاموش


اس نے توڑا وہ تعلق جو میری ذات سے تھا
اسے رنج ناجانے میری کس بات سے تھا



روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں




تیری خاموشی میں ایک راز چھپا ہے
تیری اداسی میں ایک درد چھپا ہے



جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا
مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا




کون کہتا ہے میں اکیلا ہوں
اُن راہوں پر ہمیشہ میں جس کے ساتھ چلتا تھا
آج اُن راہوں پر اپنی تنہائیوں کے ساتھ چلتا ہوں


تم سے اب پہلے سا تعلق تو نہیں
یہ اور بات ہے تمھیں بھولا پائے نہیں



اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا



درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ


راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا



دل ابھی ٹوٹا نہ تھا کہ سوال اٹھ گئے۔
آ گے سے کچھ اور ہی وبال اٹھ گئے
دل ابھی ٹوٹا نہ تھا کہ سوال اٹھ گئے



خاموشی کو بیوفائی کہنا لازمی تھا
ورنہ ہم تمہاری نظروں میں ُاتر جاتے



ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں



بہتر یہی تھا کہ مر جاتے یا مار دیتے 
یہ بچھڑ کے اذیت میں ڈال دیا تو نے



بہتر یہی تھا کہ مر جاتے یا مار دیتے 
یہ بچھڑ کے اذیت میں ڈال دیا تو نے




خاموشی کو بیوفائی کہنا لازمی تھا
ورنہ ہم تمہاری نظروں میں ُاتر جاتے



بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا



ہماری آنکھوں میں بے وجہ آ گئے آنسو
یقین کیجے کسی بات پر نہیں آئے



تیرا بچھڑنا کوئی عام واقعہ نہ تھا 
کئی برس لگے خود کو یقین دلاتے ہوئے



الوداعی میں انکے چہرے کو تکتے رہے دیر تک
پھر اسکے بعد انکا دیدار میسر نہ آسک



تعلق ٹوٹا نہیں کرتے
خفا ہونا منا لینا
یہ صدیوں سے روایت ہے



جب سے ٹوٹا ہے یہ دل
اب بےقرار نہیں رہتا



دل میں افسوس آنکھوں میں نمی سی رہتی ہے
زندگی میں شاید کوئی کمی سی رہتی ہے




اے دوست ہم نے ترکِ تعلق کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی




کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا
آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا




دسبمر تو یوں ہی بدنام ہے یارو
بچھڑنے واے تو جون جولائی میں بھی بچھڑ جاتے ہیں


اتنا تو ہوا اے دل اک شخص کے جانے سے
بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کچھ دوست پرانے سے


معاف کرنا ذہن سے نکل گیا ہے
تم سے جو کہنا تھا ہو کہ روبرو




 کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے

ہونٹوں پہ ہے خاموشی موت کی
آنکھوں میں ہے تاریکی موت کی



کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو

یہ عجب جدائی تھی تجھے الوداع بھی نہ کہہ سکے
تیرے پاس رہنے کا سوچا تھا تیرے شہر میں بھی نہ رہ سکے


جو ملتے ہیں دوست وہ بچھڑتے ہیں ضرور 
میں نادان تھا جو اک شام کی ملاقات کو زندگی سمجھ بیٹھا



خاموشی میں پیار کے اظہار بھی ہیں
پس پردہ چاہت کے اثار بھی ہیں



خاموشی میں پیار کے اظہار بھی ہیں
پس پردہ چاہت کے اثار بھی ہیں



ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ
ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے



تیرا بچھڑنا کوئی عام واقعہ نہ تھا 
کئی برس لگے خود کو یقین دلاتے ہوئے

تبصرہ کریں

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی